Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر14

اور ساتھ ہی آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ سے دھکیل کر ، اسے بدتمیزی کمرے سے باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔
"نکلیں میرے کمرے سے۔۔" وہ بدلحاظ ہوا۔
"عادل۔۔ آپ جیسے گھٹیا اور گندے آدمی کی کوئی بات نہیں سننا پسند نہیں کرتا" اس نے "کمینے" اور "گندے" پر خاصا زور دیتے ہوئے، لہجے میں طنز کی آمیزش کی، اور حقارت سے بولا۔
عدیل کو اس کا ایسا انداز بہت برا لگا، اسے اندازہ ہوا کہ وہ بالکل بھی آرام اور تحمل سے، اسکی بات نہیں سننے والا۔۔اس نے عادل کے لہجے میں موجود حقارت اور طنز کو محسوس کرتے ہوئے، سلگ کر اس پر حملہ کیا۔
عدیل نے لپک کر اس کا گریبان پکڑا۔۔ اور اسے اپنے قابو میں کیا۔
عدیل کے لیے یہ حملہ انتہائی اچانک اور غیر متوقع تھا۔۔ "کیا بدتمیزی ہے یہ۔۔!!" وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتا ہوا غرایا۔
عدیل نے اس کے گریبان پر اپنی گرفت سخت رکھی۔۔ اور سختی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے بولا۔
" سکون سے بات سنو میری۔۔!! میں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔۔!! میں بہت بہت شرمندہ ہوں۔۔ اپنی ہر حرکت پر نادم ہوں۔۔ تم ہو کہ آگے سے فضول باتیں کر رہے ہو۔۔!!"
"واٹ۔۔ نانسینس۔۔!! یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔!! ایسے کون معافی مانگتا ہے۔۔؟؟" عادل نے غصے سے کہا۔
"میں مانگتا ہوں۔۔ اور مانگ رہا ہوں۔۔!! اللّٰه کا واسطہ دیتا ہوں تجھے یار!! معاف کر دے اپنے بھائی کو۔۔!!" وہ اس کا گریبان چھوڑتے ہوئے بے تکلف ہوا، اور اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر ، ملتجی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
اس کا یکدم ایسے بدلنا۔۔ عادل کوحیران کر گیا۔۔ لیکن اس نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے، عدیل کی طرف سے چہرہ پھیرا۔۔ "شاید آپ کو آپ کے جرم کا اندازہ نہیں۔۔!! شاید آپ جانتے نہیں کہ آپ کے اس جرم کی کوئی معافی نہیں۔۔"
"ہر جرم کی معافی ہوتی ہے۔۔!! اور مجھے معافی چاہئے۔۔ ہر حال میں۔۔ چاہئے۔۔ ورنہ میرا احساس جرم میری جان لے لے گا۔۔ میرا دم گھونٹ دے گا۔۔!!" اس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہونے لگی تھیں۔۔ اور لہجہ تھا کہ بے بسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔
عادل نے ایک خفا سی نظر عدیل پر ڈالی۔۔ اور ماتھے پر تیوریاں چڑھاتا، سختی سے بولا۔۔ "بھائی پلیز۔۔!! مجھے آپ کی مزید کوئی بات نہیں سننی۔۔ اور معافی کی مجھ سے کوئی توقع مت رکھیں۔۔ آپ نے بہت دل دکھایا ہے میرا۔۔ بلکہ صرف آپ نے نہیں ہر کسی نے دکھایا ہے۔۔"
عدیل۔۔ اس کے شکوے پر کٹ کر رہ گیا، اسے اور کچھ سمجھ نہ آیا تو۔۔ وہ گرتا ہوا اس کے قدموں میں بیٹھا۔۔ آنکھیں تھیں کہ اپنا ضبط کھو چکی تھیں۔۔ آنسو امڈ امڈ کر باہر آنے لگے۔ 
"میں یہاں تمہارے پیروں میں بیٹھا رہوں گا۔۔ جب تک تم مجھے معاف نہیں کرتے۔۔اور سنو اگر تم عنقا سے شادی کرنا چاہو تو میں اسے تمہارے لیے طلاق دے دوں گا۔۔ " وہ ٹوٹتی ہوئی آواز لیے ، بے بس ہوتا ہوا بولا۔
عادل نے بدک کر پیچھے ہونا چاہا، پر عدیل سر جھکائے، اس کے پیروں کو تھامے، اسے عجیب سی کیفیت میں مبتلا کر رہا تھا۔
جو بھی تھا ، عدیل اس سے بڑا تھا۔۔ اور وہ زندگی میں ہمیشہ اس کی دل سے عزت کرتا آیا تھا۔۔ اب اسے کیسے۔۔ اپنے قدموں میں گرا ہوا دیکھتا۔۔سو اس نے آگے بڑھ کر ، اپنے بھائی کو کندھوں سے تھامتے ہوئے، اٹھایا۔۔ اور لمحے کی بھی دیر کئے بغیر اسے سینے سے لگایا۔۔ وہ اسے معاف نہیں کرنا چاہتا تھا پر عدیل کی معافی کی اس حد تک طلب دیکھتے ہوئے اس نے اپنا  فیصلہ بدلا۔
اسے لگا کہ وہ واقعی شرمندہ ہے، اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لوگ اپنی غلطیاں مان کر، کھلے دل سے اعتراف کر کے معافیاں طلب کریں۔ اگر وہ اپنی انا قربان کر کے، سچے دل سے معافی کا طلبگار تھا تو عادل کو بھی اسے معاف کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔ کیوں کہ جو کچھ ہو چکا تھا وہ بدلنے والا تو تھا نہیں۔
مگر پھر بھی،  دل میں دبی شکایتوں نے عادل کو گلہ کرنے پر مجبور کیا۔۔ وہ شدت سے عدیل کے گلے سے لگا، روٹھا روٹھا بول رہا تھا۔۔
"بھائی آپ سچ میں بہت برے ہیں۔۔!! میں معاف کرتا ہوں آپ کو۔۔ لیکن میں بہت بہت ناراض ہوں۔۔!! آپ کو پتہ ہے ہر روز کتنی تکلیف سے گزرتا تھا میں۔۔!! اور آپ ہیں کہ آپ کو اب جا کر خیال آیا ہے۔۔!!"  وہ کہتے ساتھ ہی اس سے الگ ہوا۔
"آئم سوری ناں۔۔ پتہ تو ہے۔۔ تمہارا بھائی ان معاملوں میں کتنا نکما ہے۔۔!! اینڈ تھینکس ٹو یو آ لوٹ۔۔(اور تمہارا بہت بہت شکریہ) اگر تم آج مجھے معاف نہ کرتے ناں۔۔ تو اذیت کے مارے میں نے پھر سے خودکشی کر لینی تھیں۔۔" اس نے نم آنکھیں لیے۔۔ ہلکی سا مسکرا کر کہا۔
"شٹ اپ برو۔۔!! زندگی ختم کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔۔" اس نے تیز لہجے میں سمجھا کر کہا۔
"اچھا۔۔چھوڑو یہ سب۔۔" عدیل نے ٹاپک بدلا اور نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔
"مجھے بتاؤ۔۔ کیا تم اسے اب بھی اپنانا چاہتے ہو۔۔؟؟ آئی مین۔۔ اگر چاہو تو میں اسے۔۔" وہ ابھی بول ہی رہا تھا کہ عادل نے اس کی بات کاٹی۔

   1
0 Comments